پردیس کا خواب اور جعلی ایجنٹوں کا جال

ہر سال ہزاروں نوجوان بیرونِ ملک جانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ کوئی چاہتا ہے کہ اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دلوائے، کوئی اپنے والدین کے لیے اچھا گھر بنائے، اور کوئی غربت کی زنجیروں کو توڑ کر نئی زندگی شروع کرنا چاہتا ہے۔ لیکن افسوس! اسی خواب کے پیچھے کئی لوگ جعلی ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

یہ ایجنٹ بڑے میٹھے وعدے کرتے ہیں:
✈️ "صرف دو لاکھ روپے دو، اور اگلے مہینے ملائشیا کی فلائٹ پر ہو گے۔”
💼 "ہماری کمپنی تمہیں اچھی نوکری اور شاندار رہائش دے گی۔”
💰 "تنخواہ بھی اتنی ہوگی کہ پہلے مہینے ہی سارا خرچ نکل آئے گا۔”

سننے میں یہ سب خواب کی طرح لگتا ہے… لیکن حقیقت میں یہ خواب ایک ڈراونا خواب بن جاتا ہے۔

📌 کئی واقعات میں نوجوان اپنی زمین بیچ کر یا قرض اٹھا کر ایجنٹ کو پیسے دے دیتے ہیں۔ لیکن نہ ویزا ملتا ہے، نہ نوکری۔ کچھ کو تو جعلی ویزے دے کر بھیج دیا جاتا ہے اور ایئرپورٹ پر ہی پکڑے جاتے ہیں۔ پھر نہ صرف ملک بدر ہونا پڑتا ہے بلکہ لاکھوں روپے کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

📌 جو لوگ کسی طرح پہنچ بھی جائیں، انہیں پتا چلتا ہے کہ نوکری ویسی نہیں ہے جیسی وعدہ کیا گیا تھا۔ تنخواہ آدھی، رہائش خستہ حال، اور کام خطرناک۔ ایسے ورکر غیر قانونی طریقے سے کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ہر وقت امیگریشن کے خوف میں زندگی گزارتے ہیں۔

😔 سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جب حادثہ ہو یا کوئی مسئلہ بنے تو کوئی کمپنی یا ایجنسی ان کے حق میں کھڑی نہیں ہوتی، کیونکہ وہ قانونی طور پر رجسٹرڈ ورکر ہی نہیں ہوتے۔

✅ ماہرین کا کہنا ہے:
اگر واقعی پردیس جانا ہے تو صرف حکومتی اجازت یافتہ ایجنسیوں یا ڈائریکٹ کمپنیوں کے ذریعے اپلائی کریں۔
اپنے کاغذات اور معاہدے کی کاپیاں ہمیشہ محفوظ رکھیں۔
اور یاد رکھیں، اگر کوئی ایجنٹ آپ کو کہے کہ "زیادہ پیسے دو اور جلدی ویزا ملے گا”، تو سمجھ لیں کہ یہ دھوکہ ہے۔

⚠️ زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ جذبات میں نہ کریں۔ پردیس کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے صبر، تحقیق اور صحیح راستہ ضروری ہے۔

💡 ایک لمحے کی بے احتیاطی کئی سالوں کی محنت اور خواب برباد کر سکتی ہے

More From Author

ہر قربانی کے پیچھے ایک روشن مستقبل

ملائیشیا میں غیر ملکی کارکنوں کی تعداد میں بنگلہ دیش سرفہرست ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے