پردیس کی زندگی جتنی رنگین خوابوں میں لگتی ہے، حقیقت میں اتنی ہی کٹھن اور صبر آزما ہوتی ہے۔ اپنے دیس سے ہزاروں میل دور، زبان بھی اجنبی، رسم و رواج بھی مختلف اور سہارا بھی کوئی نہیں۔ ایسے میں جو سب سے بڑی نعمت نصیب ہوتی ہے، وہ ہے اپنے جیسے لوگوں کا ساتھ۔ وہی ساتھی جن کے ساتھ کمرہ بانٹا جاتا ہے، وہی دوست جن کے ساتھ مزدوری کے بعد روٹی کے نوالے تقسیم کیے جاتے ہیں، وقت کے ساتھ ایک دوسرے کے سہارے اور خاندان کا روپ دھار لیتے ہیں۔
پردیس کی سخت زندگی میں اصل دولت یہی بھائی چارہ ہے۔ جب کوئی مزدور بیمار ہوتا ہے تو دوا کے لیے دوسرے دوست آگے بڑھتے ہیں۔ جب کسی کے پاس پیسے کم پڑ جائیں تو دوسرا خاموشی سے مدد کر دیتا ہے۔ عید ہو یا جمعہ کی چھٹی، سب مل کر کھانا پکاتے ہیں اور خوشی کے لمحے ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتے ہیں۔ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں پردیس کی زندگی کو سہارا دیتی ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ پردیس میں ایک دوسرے کا سہارا بننا کوئی آپشن نہیں بلکہ مجبوری ہے۔ تنہائی اور مشکلات کے بیچ اگر کوئی کندھا مل جائے تو انسان کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پردیسی مزدور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں یوں شامل ہو جاتے ہیں جیسے صدیوں کا رشتہ ہو۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پردیس میں ہمارا سب سے قریبی رشتہ دار وہی ہے جو ہمارے ساتھ کمرہ شیئر کر رہا ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے، ایک دوسرے کی مدد کریں گے تو یہ سفر آسان ہو جائے گا۔ ورنہ مشکلات اور تنہائیاں انسان کو توڑ ڈالتی ہیں۔
پردیس میں بھائی چارہ نہ صرف زندگی کو سہل کرتا ہے بلکہ ہمیں یہ سبق بھی دیتا ہے کہ انسانیت سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہی احساس دوسروں کو بھی حوصلہ دیتا ہے اور ہمیں بھی اندر سے سکون بخشتا ہے۔