پردیس کی زمین پر قدم رکھتے ہی سب سے پہلا سوال

پردیس کی زمین پر قدم رکھتے ہی سب سے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ ’’کس پر بھروسہ کیا جائے؟‘‘۔ دیارِ غیر میں، جہاں زبان بھی اجنبی ہو، قانون بھی نیا ہو، اور کوئی قریبی سہارا بھی نہ ہو، وہاں اکثر پاکستانی ورکرز کا سامنا سب سے پہلے انہی ’’ایجنٹوں‘‘ سے ہوتا ہے جو ان کی کمزوریوں کو پہچان کر خواب دکھاتے ہیں اور پھر انہی خوابوں کو بیچ کر ان کی جیبیں خالی کرتے ہیں۔
ملائشیا میں ہزاروں ورکرز محنت مزدوری کرتے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر فیکٹریوں، تعمیراتی سائٹس اور ورکشاپس میں دن رات پسینہ بہاتے ہیں۔ لیکن ان کی سب سے بڑی آزمائش یہ مشقت نہیں بلکہ وہ دھوکے باز ایجنٹ ہیں جو خود کو ’’مددگار‘‘ کہہ کر سامنے آتے ہیں۔ ایجنٹ کبھی ورک پرمٹ بڑھانے کے نام پر پیسے لیتے ہیں، کبھی پاسپورٹ یا ویزا کے مسائل حل کرنے کا جھانسہ دیتے ہیں، اور کبھی اچھی نوکری کا لالچ دے کر ہزاروں رِنگٹ اینٹھ لیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر ورکرز نہ تو قوانین سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی اتنا وقت یا صلاحیت رکھتے ہیں کہ خود سے سرکاری اداروں کے چکر کاٹ سکیں۔ یہی کمزوری ان ایجنٹوں کی اصل طاقت ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’بھائی بس ہمیں دے دو، تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں‘‘۔ لیکن اکثر ہوتا یہ ہے کہ پیسہ لے کر غائب ہو جاتے ہیں، یا پھر جعلی کاغذ پکڑا دیتے ہیں۔ نتیجہ؟ مزدور کے پاس نہ پاسپورٹ رہتا ہے، نہ پیسہ، اور نہ ہی کوئی پناہ۔
یہ ایجنٹ صرف مالی نقصان نہیں کرتے بلکہ کئی ورکرز کو جیل اور ڈیپورٹیشن تک پہنچا دیتے ہیں۔ پاسپورٹ گم ہو جائے تو ایجنٹ سے رجوع کرتے ہیں، ویزا ایکسپائر ہو جائے تو ایجنٹ کے پاس جاتے ہیں، لیکن یہ ’’مددگار‘‘ اصل میں ان کے سب سے بڑے دشمن بن جاتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ اس پورے کھیل کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے: آگاہی۔ ورکرز کو چاہیے کہ وہ قانونی ذرائع استعمال کریں، سفارت خانوں اور ہائی کمیشن سے رہنمائی لیں، اور ایک دوسرے کو خبردار کریں۔ پردیس میں ایک دوسرے کا سہارا بننا سب سے بڑی طاقت ہے۔
ایجنٹوں کے دھوکے کی داستانیں شاید ختم نہ ہوں، لیکن اگر ورکرز متحد ہو جائیں اور شعور کے ساتھ فیصلے کریں، تو کوئی بھی دھوکے باز ان کے خوابوں سے کھیل نہیں سکے گا۔

More From Author

پردیس میں بھائی چارہ: ایک دوسرے کا سہارا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے