پردیس کا کڑوا ذائقہ اور اپنے دیس کی میٹھی یادیں

صبح کے چار بجے آنکھ کھلتی ہے، کمر سیدھی کرنے کا وقت بھی نہیں ملتا۔ چھوٹے سے کمرے میں پانچ اور ساتھی خراٹے لے رہے ہوتے ہیں۔ میں وضو کرتا ہوں، فجر پڑھتا ہوں اور پھر تیزی سے تیار ہو کر فیکٹری کی بس میں سوار ہو جاتا ہوں۔”

یہ ہے کہانی بہادر خان کی، جو پاکستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے اپنے خواب سمیٹ کر ملائیشیا آیا۔ بہادر کہتا ہے:
"جب پسینے کے قطروں سے کپڑے بھیگ جاتے ہیں اور ہاتھوں کی سختی چھالوں میں بدل جاتی ہے، تو دل میں ایک ہی سوچ رہتی ہے کہ یہ سب میرے بچوں کے مستقبل کے لیے ہے۔”

فیکٹری کی مشینوں کی گڑگڑاہٹ، کانوں کو بہرا کرنے والی آواز اور بارہ گھنٹے کا طویل وقت… یہ سب اس کے معمول کا حصہ ہے۔
لیکن جب تنخواہ کی رقم وطن بھیجتا ہے، تو دل کے اندر ایک روشنی سی جاگ اٹھتی ہے۔ "ماں کی دعائیں، بچوں کی مسکراہٹ اور بیوی کی ہمت ہی میرا اصل سرمایہ ہیں۔”

بہادر جیسے ہزاروں ورکرز ہیں، جو پردیس کی گلیوں میں اپنا سب کچھ قربان کر کے وطن کی معیشت کا پہیہ چلا رہے ہیں۔ مگر ان کی زندگی ایک ایسی ڈائری ہے، جس کے ہر ورق پر محنت، صبر، تنہائی اور امید کے الفاظ درج ہیں۔

پردیس کا کڑوا ذائقہ اور اپنے دیس کی میٹھی یادیں… یہی ہے ایک ورکر کی اصل کہانی۔

More From Author

پردیس میں بھائی چارہ: ایک دوسرے کا سہارا

غیر ملکی مزدور ملائشیا کی معیشت کا اہم ستون

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے