فیصل آباد کا ایک سادہ سا نوجوان، ندیم، اپنے گھر کا واحد سہارا تھا۔ والد کا انتقال بچپن میں ہی ہو گیا تھا اور ماں نے سلائی کرکے بچوں کو پالا۔ جب ماں کو دل کی بیماری لاحق ہوئی اور علاج کے اخراجات بڑھ گئے تو ندیم نے فیصلہ کیا کہ وہ بیرونِ ملک جا کر محنت کرے گا۔ یوں اس نے ملائشیا کا رخ کیا۔
ملائشیا پہنچنے کے بعد ندیم کو ایک فیکٹری میں کام ملا۔ روزانہ 14 گھنٹے کی ڈیوٹی، مشینوں کا شور، گرمی اور پسینے میں ڈوبا ہوا ماحول… مگر ندیم نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ ہاتھوں پر چھالے اور پیروں میں سوجن کے باوجود وہ یہ سوچ کر سب کچھ سہہ جاتا کہ "یہ تکلیف عارضی ہے، لیکن ماں کی مسکراہٹ ہمیشہ کے لیے سکون دے گی۔”
ہر مہینے تنخواہ ملتے ہی وہ سب سے پہلے پیسے گھر بھیجتا تاکہ والدہ کا علاج جاری رہ سکے۔ کبھی اپنے لیے نئے کپڑے نہیں خریدے، نہ دوستوں کے ساتھ وقت گزارا، بس ایک ہی خواہش تھی کہ ماں کی دوا کبھی بند نہ ہو۔
ندیم اکثر ویڈیو کال پر ماں کو دیکھ کر کہتا: "امی، آپ کی ہنسی میری کمائی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ خوش رہیں، باقی سب خواب میں نے چھوڑ دیے ہیں۔” ماں کی آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر دعا بھری مسکراہٹ ندیم کے لیے دنیا کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔
یہ کہانی صرف ندیم کی نہیں، بلکہ ہزاروں ورکرز کی ہے جو اپنے خوابوں کو قربان کر کے اپنے پیاروں کے خواب پورے کرتے ہیں۔ پسینے کی ہر بوند میں ایک دعا، ایک قربانی اور ایک امید چھپی ہوتی ہے۔ یہ ورکر ہی اصل ہیرو ہیں جن کی قربانیوں پر نہ صرف ان کے خاندان بلکہ پوری قوم فخر کرتی ہے۔
